غزوہ احزاب حضرت سلمان فارسی کا مشورہ، خندق کا محل وقوع اور نتائج
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مشورہ
غزوہ احزاب جسے غزوہ خندق کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور فیصلہ کن معرکہ ہے۔ اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشرکین مکہ اور ان کے اتحادی قبائل کے ایک بڑے لشکر کا مقابلہ کیا۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا مشورہ دیا جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے فتح کا باعث بنا بلکہ جنگی حکمت عملی میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی ثابت ہوا۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، جو کہ ایران سے تعلق رکھتے تھے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک طویل اور صبر آزما سفر طے کر کے دین حق کی تلاش میں سرگرداں رہے، جنگی حکمت عملی اور دفاعی تدابیر میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کی جغرافیائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ شہر کے گرد ایک خندق کھودی جائے۔ یہ تجویز اس وقت تک عربوں کے لیے بالکل نئی تھی کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کی دفاعی تدبیر نہیں دیکھی تھی۔ خندق کھودنے کا مقصد یہ تھا کہ مشرکین کے لشکر کی پیش قدمی کو روکا جائے اور انہیں مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کو نہ صرف قبول فرمایا بلکہ اس پر عمل کرنے کا بھی حکم دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے خندق کی کھدائی شروع کر دی۔ یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ موسم بھی سخت تھا اور وسائل بھی محدود تھے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری اور دن رات کام کر کے خندق کو مقررہ وقت میں مکمل کر لیا۔
خندق کی کھدائی کے دوران مسلمانوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض مقامات پر سخت چٹانیں حائل تھیں جنہیں توڑنا آسان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ منافقین بھی اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تمام مشکلات کا صبر اور استقامت سے مقابلہ کیا اور اپنے مقصد پر ثابت قدم رہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی خندق کی کھدائی میں حصہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر مٹی اٹھائی بلکہ ان کے حوصلے بھی بڑھائے اور انہیں کام کرنے کی ترغیب دی۔ اس طرح یہ خندق مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط دفاعی حصار ثابت ہوئی اور مشرکین کے حملوں کو پسپا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
غزوہ احزاب میں خندق کی کھدائی ایک منفرد اور موثر حکمت عملی ثابت ہوئی۔ اس نے مسلمانوں کو ایک مضبوط دفاعی پوزیشن فراہم کی اور مشرکین کے حملوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا یہ مشورہ نہ صرف اس غزوہ میں مسلمانوں کی فتح کا باعث بنا بلکہ آئندہ کے لیے بھی جنگی حکمت عملی میں ایک اہم مثال بن گیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مشکل حالات میں بھی عقل و دانش اور مشاورت سے کام لینا چاہیے اور حالات کے مطابق بہترین تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔
خندق کا محل وقوع
غزوہ خندق میں خندق کا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کا انتخاب اس طرح کیا گیا تھا کہ مدینہ منورہ کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنایا جا سکے۔ خندق کی کھدائی مدینہ کے شمال کی جانب کی گئی تھی کیونکہ یہی وہ سمت تھی جہاں سے مشرکین کے لشکر کے حملے کا خطرہ تھا۔ مدینہ کے باقی اطراف قدرتی طور پر محفوظ تھے کیونکہ وہاں یا تو پہاڑ تھے یا گھنے باغات اور کھجور کے درخت تھے۔
خندق کی لمبائی تقریباً پانچ کلومیٹر تھی اور اس کی گہرائی اور چوڑائی اتنی رکھی گئی تھی کہ دشمن کے گھڑ سوار اور پیادہ سپاہی آسانی سے اسے عبور نہ کر سکیں۔ خندق کی کھدائی میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ مدینہ کے اندر سے باہر نکلنے کے راستے کھلے رہیں تاکہ بوقت ضرورت کمک پہنچائی جا سکے اور نقل و حرکت میں آسانی رہے۔ خندق کی کھدائی ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا لیکن مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں یہ کام بخوبی انجام دیا۔
خندق کا محل وقوع اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ اس نے مشرکین کے لشکر کو حیران کر دیا۔ مشرکین نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کی دفاعی تدبیر نہیں دیکھی تھی اور وہ خندق کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان کے لیے یہ ایک نئی چیز تھی اور وہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا پا رہے تھے کہ اس خندق کو کیسے عبور کیا جائے۔ اس طرح خندق نے مشرکین کی پیش قدمی کو روک دیا اور انہیں مدینہ پر حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔
خندق کے محل وقوع کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس نے مسلمانوں کو وقت فراہم کیا۔ جب مشرکین کا لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو انہوں نے خندق کو دیکھا اور انہیں اندازہ ہوا کہ اب انہیں ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اس دوران مسلمانوں کو اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے اور حملے کی تیاری کرنے کا موقع مل گیا۔ اس طرح خندق نے مسلمانوں کو ایک اہم اسٹریٹجک فائدہ فراہم کیا۔
خندق کی کھدائی اور اس کے محل وقوع کے انتخاب میں مسلمانوں کی دوراندیشی اور حکمت عملی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے حالات کا صحیح تجزیہ کیا اور اس کے مطابق بہترین تدبیر اختیار کی۔ خندق نے نہ صرف مدینہ کو دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا بلکہ مسلمانوں کے حوصلے بھی بلند کیے اور انہیں فتح کی امید دلائی۔ اس طرح خندق کا محل وقوع غزوہ احزاب میں مسلمانوں کی کامیابی میں ایک اہم عنصر ثابت ہوا۔
غزوہ خندق کے نتائج
غزوہ خندق اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن معرکہ ہے۔ اس غزوہ کے نتائج دور رس ثابت ہوئے اور اس نے نہ صرف مسلمانوں کی پوزیشن کو مضبوط کیا بلکہ جزیرہ عرب میں اسلام کے مستقبل کا بھی تعین کیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو بظاہر کوئی بڑی فوجی فتح حاصل نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود اس کے اثرات بہت گہرے اور دیرپا تھے۔
غزوہ خندق کا سب سے اہم نتیجہ یہ تھا کہ اس نے مشرکین کی طاقت کو توڑ دیا۔ قریش اور ان کے اتحادی قبائل نے مل کر ایک بڑا لشکر تیار کیا تھا تاکہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن خندق کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور انہیں ناکام واپس جانا پڑا۔ اس غزوہ میں مشرکین کی شکست نے ان کے حوصلے پست کر دیے اور ان کی جنگی قوت کو کمزور کر دیا۔
اس غزوہ کا ایک اور اہم نتیجہ یہ تھا کہ اس نے مسلمانوں کی ساکھ کو بڑھایا۔ غزوہ خندق میں مسلمانوں نے جس طرح صبر، استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کیا، اس سے ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ عرب قبائل نے مسلمانوں کی طاقت اور عزم کا اندازہ لگایا اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کا احترام بڑھ گیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے قبائل نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
غزوہ خندق کے بعد مسلمانوں کی پوزیشن اتنی مضبوط ہو گئی کہ انہوں نے خود جارحانہ انداز اختیار کر لیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے کئی اہم فتوحات حاصل کیں جن میں فتح خیبر اور فتح مکہ شامل ہیں۔ ان فتوحات نے جزیرہ عرب میں اسلام کے غلبے کو یقینی بنا دیا اور مسلمانوں کو ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنانے کا موقع فراہم کیا۔
غزوہ خندق کے نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی تھا کہ اس نے منافقین کو بے نقاب کر دیا۔ غزوہ کے دوران منافقین نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی اور ان کے حوصلے پست کرنے کی سازشیں کیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیا اور ان کا نفاق سب پر ظاہر ہو گیا۔ اس کے بعد منافقین کی پوزیشن کمزور ہو گئی اور مسلمانوں نے ان پر قابو پا لیا۔
غزوہ خندق سے مسلمانوں کو یہ سبق بھی ملا کہ مشکل حالات میں اتحاد، صبر اور استقامت سے کام لینا چاہیے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں نے جس طرح مل کر کام کیا اور تمام مشکلات کا مقابلہ کیا، وہ ایک مثال ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مشورہ اور حکمت عملی سے کام لینے سے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی شکست دی جا سکتی ہے۔
مختصر یہ کہ غزوہ خندق اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس غزوہ کے نتائج نے مسلمانوں کے مستقبل کا تعین کیا اور انہیں ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنانے میں مدد فراہم کی۔ اس غزوہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق پر ثابت قدم رہنے اور اللہ پر بھروسہ کرنے سے کامیابی ضرور ملتی ہے۔
خلاصہ
اس مضمون میں غزوہ احزاب میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے، خندق کے محل وقوع اور غزوہ خندق کے نتائج پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مسلمانوں کو ایک موثر دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کا موقع ملا اور خندق نے مشرکین کے حملوں کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خندق کا محل وقوع مدینہ منورہ کی حفاظت کے لیے انتہائی موزوں تھا اور اس نے مسلمانوں کو وقت اور اسٹریٹجک فائدہ فراہم کیا۔ غزوہ خندق کے نتائج دور رس ثابت ہوئے اور اس نے مسلمانوں کی پوزیشن کو مضبوط کیا، مشرکین کی طاقت کو توڑ دیا اور جزیرہ عرب میں اسلام کے مستقبل کا تعین کیا۔ اس غزوہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکل حالات میں اتحاد، صبر اور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے۔